بات پرانی ہے مگرطاق پر رکھے چراغ کے لوکی طرح آج بھی روشنی دے رہی ہے اس روشنی میں آپ اس سفید ریش نرم گومجدد کودیکھ سکتے ہیں درمیانہ قد، قدرے فربہی مائل جسم ،چہرہ پر سفید گھنی داڑھی کا ہالہ،ناک پر سیاہ کمانیوں والی عینک کا بوجھ ،فراخ پیشانی اور پیچھے کی جانب بنائے ہوئے بال ۔۔۔نورانی چہرے والے یہ بزرگ اس وقت اپنے ساتھیوں میں گھرے بیٹھے تھے بیٹھے کیا تھے کٹہرے میں کھڑے تھے سوالوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی ایک کے بعد ایک سوال اور ایک کے بعد ایک... وہ باظرف بزرگ خندہ پیشانی سے سب کی سن رہے تھے کبھی کوئی دائیں جانب سے سوال کرتااور کبھی کوئی بائیں جانب سے اعتراض اٹھا دیتا،نورانی چہرے والے وہ بزرگ سب کی سن رہا تھا انکی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی جیسے یہی ان کی کامیابی ہووہ یہی چاہتا ہوں ،محفل احتساب میں اس وقت تو گویا کمال ہو گیا جب ایک نوجوان نے عجیب سوال جڑ دیا لیکن اس پر بھی وہ وضع دار بزرگ برہم ہوئے نہ ان کی نظروں کا زاویہ بدلا۔ انہوں نے سوال کرنے والے معترض سے یہ تک نہ کہا کہ میاں ! کچھ پوچھنے سے پہلے دیکھ تو لو کہ بیٹھے کہاںہوتم میرے گھر مدعوا ور میرے مہمان ہوکیسی باتیں کر رہے ہو ۔۔۔ لیکن ایسا کچھ نہ تھاعجیب باظرف میزبان تھا ۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ وہ گھر اس بزرگ کا محض گھر ہی نہ تھا اک تحریک ایک تنظیم کا دفتر بھی تھا یہ سب اک فکر کے لوگ تھے اور یہ وہی فکر تھی جو 1400 برس پہلے یثرب کو مدینہ منورہ میں بدل چکی تھی یہ لوگ بھی پاکستان کو اسی فلاحی ریاست میں بدل کر تحریک پاکستان کی تکمیل چاہتے تھے وہ گھر جماعت اسلامی کے بانی و امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کا تھا ۔یہ گھر ہی نہیں جماعت اسلامی کا دفتر بھی تھاجس کا اک گوشہ دفتر کے لئے مختص تھا ۔یہ واقعہ اسی دفتر کا ہے سید ابو الاعلی مودودی رحمتہ اللہ علیہ اپنے ساتھیوںکے درمیان موجود تھے کہ ایک صاحب معترض ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیدی کے گھر کے فلاں حصے میں رات بھر بلب جلتا رہتا ہے بتایا جائے یہ اصراف کیوں ہو رہا ہے؟سوچئے کہ ایک کارکن اپنے امیر سے اسکے گھر میں قائم دفتر میں بیٹھا کس آسانی سے احتساب کررہا ہے ۔ سیدمودوی مرحوم و مغفور نے سوال کرنے والے کو اس اطمینان سے دیکھا گویا ان کی محنت وصول ہو گئی ہو وہ یہی احتساب تو جماعت میں چاہتے تھے، فرمانے لگے گھر کے اس حصے میں خاصی تاریکی ہوتی ہے پچھلے دنوں بھی کچھ افرادبھی دیوار کود کر آگئے تھے، اسی وجہ سے اب وہاں بلب روشن رہتا ہے اور ہاں چوںکہ میری ضرورت ہے اس لئے اس کا بل میں اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں جماعت کے فنڈ سے ادائیگی نہیں ہوتی۔ رب العالمین مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے وہ جماعت میں احتساب کو وہ نظام چھوڑ کر گئے کہ سمجھیں حق ادا ہوگیا ،وقت کا پہیہ اپنی رفتار سے چل پڑا ۔سیدی اپنا وقت پورا کر کے رب کے حضور پیش ہو گئے ان کے بعد میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور منور حسن مرحوم بھی قیادت کی ذمہ داری نبھاتے نبھاتے اپنے مرشد مودودی کے پاس پہنچ چکے۔ اب جماعت کی ذمہ داری ایک مزدور کے بیٹے سراج الحق کے ہاتھ میں ہے، کچے پکے گھر کا مالک ،کبھی خیبر پختونخواہ کی حکومت میں وزیر خزانہ بھی رہ چکا ہے۔ یہاں وزارت ملنے کے پہلے ہی دن سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے وزیر موصوف کا اسٹیٹس بدل چکا ہوتاہے لیکن سراج الحق صاحب 2013سے 2014تک سال بھر وزیر خزانہ رہنے کے بعد جب کپڑے جھاڑ کر ذمہ داری سے فارغ ہوئے تو اسی کچے فرش پر پڑی چارپائی ان کی منتظر تھی ،نیب کے کیسز اور انوسٹی گیشن آفیسر نہیں ۔قصہ کوتاہ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب سراج الحق صاحب سینیٹر بنے اورانکے کراچی آنے کا پروگرام بنا ان کے لئے ایک کار کی ضرورت پڑگئی کہ امیر جماعت نے کراچی آنا جانا ہوگا کراچی بڑا شہر ہے فاصلے بھی کم نہیں ۔اسی نیت سے 1300 سی سی کی کار خرید لی گئی جو جماعت کروڑوں اربوں روپے کے رفاعی پروجیکٹ چلا رہی ہو اس کے امیر کے لئے بارہ تیرہ لاکھ روپوں کی گاڑی خرید لینا کیا معنی رکھتی ہے۔ اس صورت میں جب یہ کار انہیں گفٹ بھی نہ ہو رہی ہولیکن نہیں جی جماعت اسلامی کراچی کے اجتماع ارکان میں اخراجات ڈسکس ہوئے تو اس ’’فضول خرچی‘‘ پر اعتراض کردیا گیا کہ بتایا جائے 1300 کی کار کیوں لی گئی ۔ گزشتہ پانچ برسوں میں احتساب کا نعرہ زبان زد عام ہے ۔عمران خان اسی نعرے اور احتساب کی بنیاد پر بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاؤس پہنچے تھے ۔یہ الگ بات ہے کہ اب اسکینڈلز مقدمے بن رہے ہیں کہا جارہا ہے کہ عمران خان بھی بہت ’’پہنچے‘‘ ہوئے نکلے ،میں پاکستان کے گلے سڑے بوسیدہ نظام اور سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیتا ہوں تو کسی سیاسی جماعت میںسرے سے ہی احتساب کا نظام دکھائی نہیں دیتا کسی جماعت کے پاس کوئی ایسا وزیر ہے جو سبکدوش ہو تو اسے نیب والے یاد نہ کریں لیکن جماعت اسلامی کے کسی فرد پر کوئی ایک مقدمہ نہیں۔نیب کی ویب سائیٹ پر جائیں جماعت اسلامی کلیئر ملے گی حالاںکہ کے پی کے حکومت میں جماعت اسلامی کے دو وزیر اہم وزارتوں پر فائز رہے۔ ان میںایک وہی عنایت اللہ خان بھی ہیں جو دو بار وزیر رہے جنہیں عمران خان نے 2015-16میں ہمارے دوست اور ایک نیوز چینل کے سینئر پروڈیوسر راجا شاہد کی موجودگی میں نجی نشست کے دوران شائننگ اسٹار قرار دیا اور کہا کہ جماعت اسلامی کے ایسے لوگوں کی مجھے ضرورت ہے۔ کھرے سچے رہنماؤںکی ہمیں آکسیجن کی طرح ضرورت ہے مجھے سمجھ نہیں آتا احتساب ہمارا مدعا اور کرپشن مسئلہ ہے تو جماعت اسلامی جیسی قیادت ہمارا انتخاب کیوں نہیں ۔صبح شام کرپشن کا ماتم کرنے والے پاکستانیوں کی کیا مجبوری ہے کہ انہیں یہ اجلا دامن دکھائی نہیں دیتا مسئلہ کرپشن ہے تو جماعت اسلامی ہماری نظروں سے اوجھل کیوں ہے !